دہشت گردی کیس: عمران خان کی عدم حاضری پر ضمانت کی درخواست مسترد
دہشت گردی کی لعنت پاکستان کو بدستور گھیر رہی ہے جس کی جڑیں معاشرے میں بہت گہرے ہیں۔ ملک کئی دہائیوں سے اس مسئلے سے مختلف کامیابیوں کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ تاہم انسداد دہشت گردی کے شعبے میں حالیہ پیش رفت نے ملک کے لیے امید کی کرن روشن کی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کوششوں کو بہت سے لوگوں نے سراہا ہے، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔
حال ہی میں، ایک ہائی پروفائل دہشت گردی کیس میں، پاکستان کے وزیر اعظم، عمران خان نے غیر حاضری کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست کی تھی۔ تاہم عدالت نے درخواست مسترد کردی۔ یہ مقدمہ پاکستان میں ایک مسجد پر دہشت گردانہ حملے سے متعلق ہے جس میں کئی بے گناہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ ملزم کو حملے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا، اور وزیر اعظم کو کیس میں گواہی کے لیے عدالت میں پیش ہونے کی استدعا کی گئی تھی۔
تاہم وزیراعظم مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہو سکے اور انہوں نے عدم حاضری کی بنا پر ضمانت کی درخواست کی۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم کو اس کیس کا پہلے سے علم ہوتا تو انہیں عدالت میں پیش ہونے کے انتظامات کرنے چاہیے تھے۔ عدالت نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی کوششوں پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیراعظم کی عدم حاضری کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست مسترد ہونے سے پاکستانی عوام کو سخت پیغام جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ فیصلہ حکومتی اہلکاروں کی اپنے اعمال کی ذمہ داری لینے اور ان لوگوں کے سامنے جوابدہ ہونے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے جن کی وہ خدمت کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاشرے کے تمام طبقوں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کے لیے صرف ایکشن لینا کافی نہیں ہے۔ پاکستانی عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ چوکس رہیں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع حکام کو دیں۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف حکومت کی کوششوں کی حمایت کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے، چاہے اس کا مطلب قربانیاں ہی کیوں نہ ہوں۔
آخر میں، غیر حاضری کی بنیاد پر وزیراعظم کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرنا درست سمت میں ایک قدم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد کوششوں کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے جس کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کی حمایت اور تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اپنے ملک کو ایک محفوظ مقام بنانے کے لیے مل کر کام جاری رکھنا چاہیے۔
0 Comments